Search This Blog

Translate

08 May 2020

کرونا وائرس کی بیماری (کوویڈ-19) اور اسکے لئے بننے والی نئی ویکسین

کرونا وائرس (کوویڈ-19) اور اس کی لیے بننے والی نئی ویکسین کے بارے لوگ جسجتجو میں لگے ہوئے اسلئے پہلے وائرس اور ویکسین کے بارے معلومات جاننا ضروری ہیں
ہر وائرس کے اردگرد پروٹین (چربی) کی جھلی ہوتی جو اسے تحفظ دیتی اور انسانی و حیوانات کے سیل cell میں گھنسے میں مددگار ثابت ہوتی صابن میں موجود کیمیکل سے وہ پروٹین تحلیل ہوجاتا جس کے بعد وائرس کا ڈیفنس نہیں رہتا نا وہ کسی cell میں گھس سکتا اور جلدی ختم ہوجاتا
ویکسین بنانا بھی آسان کام نہیں یہ کسی حکیم کے کُشتے کے جیسا نہیں کہ مرکبات مکس کرکے کھلا دی جائے یہ ایک طویل سائنسی تحقیقی عمل ہوتا جو کئی مراحل کے بعد یہ انسانوں پہ استعمال ہوتی ہے

چیچک یا خسرہ کی بیماری کی ویکسین 28سال کی محنت کے بعد تیار ہوئی تھی
ایک اہم بات ویکسین علاج کی بجائے احتیاط کے طور کام کرتی  جو انسانی جسم میں مخصوص مدافعت بڑھاتی جسکی وجہ سے یہ مریضوں کی نسبت صحتمند انسانوں پہ زیادہ اثر رکھتی جبکہ اب تک دُنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثرہ 39لاکھ مریض سامنے آچکے اور یہ تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے
جیسے ہی کسی نئے وائرس سے انسانوں میں نئی بیماری سامنے آتی اس کی ویکسین پہ کام شروع ہوجاتا چاہے بیماری کنٹرول ہی کیوں نا کرلی جائے COVID19 کرونا وائرس کی فیملی سے تعلق رکھتا جو ساخت اور بیماری کی علامات میں یہ ( SARS - 2003 ) اور ( MERS - 2009 ) جیسا ہے جو کرونا کی ہی فیملی سے ہیں جن پر 2003 اور 2009 سے ہی پہلے ہی تحقیق جاری (حالانکہ دونوں کنٹرول ہوچکے اور پھیل نہیں رہے نا ان دونوں بیماریوں کے مریض سامنے آرہے لیکن دوبارہ آسکتے اسلئے کام جاری رہتا) ان ہی دونوں پہ ہونے والی تحقیق کی وجہ سے اب آنی والی کرونا وائرس کی بیماری COVID19 *جسے ( SARS-Cov-2 ) بھی کہا جاتا*  کی ویکسین ریکارڈ کم ترین مدت میں بننے کا ٹائم رکھا گیا ہے
محتاط اندازے کے مطابق جو کم سے کم مدت کا تعین ہوا ہے وہ بھی 18مہینے ہیں جو اس ویکسین کی تیاری میں لگنے ہیں مگر یہ ٹارگٹڈ ٹائم رکھا گیا ہے لازمی نہیں ویکسین اس عرصے میں بن بھی جائے ہوسکتا زیادہ دیر ہو جائے یا کبھی بنے ہی نہیں
یاد رہے دنیا میں بہت سی بیماریوں کی سال ہا سال سے تحقیق کے باوجود ابھی تک کوئی ویکسین نہیں بنی
اس لیے کہا جاتا احتیاط ضروری ہے یہی ابھی تک بہترین حل ہے
اور
ویکسین نا بننے کی وجہ سے اس بیماری کے پیش نظر میل جول کے صدیوں پرانے طریقے تبدیل ہونے جارہے ہیں
جیسے کہ آپس میں ہاتھ ملانا جو *یونانی* تہذیب میں شروع ہوا جسکا واحد مقصد یہ بتانا ہوتا تھا کہ میرے ہاتھ میں آپ کے لیے خنجر نہیں اور ہاتھ ملا کر ہلانے کا مقصد آستینوں میں چُھپے خنجر کو باہر گرانا ہوتا 
آدھی سے زیادہ دنیا پر یونانیوں حکومت کی وجہ سے یہ طریقہ پوری دنیا میں پھیلا
*جو کہ آجکل کے زمانے میں بالکل غیر ضروری عمل ہے* اور اس بیماری کے بعد آہستہ آہستہ متروک ہوسکتا ہے


(Leave your comment below & follow my blog for more interesting and informative articles)

No comments:

Reader's Choice

Followers