05 August 2018

ھوائی چھوڑنا


اسلام آباد کی ایک معرورف اشتہاراتی کمپنی میں کام کرتے ہوئے اکثر آرٹ ڈیپارٹمنٹ کے دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے موضوع اکثر کرکٹ کی طرف نکل جاتا تھا چونکہ مارکیٹنگ اور آرٹ ڈیپارٹمنٹ کی علیحدہ علیحدہ ٹیمیں تھیں جنکے درمیان میچز ہوتے رہتے تھے اسلئیے باتوں باتوں میں ایک دوسرے کو زَچ کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر ایسی بات کردی جاتی تھی جو اثر بھی رکھتی ہو اور مخالفین لاجواب بھی ہو جائیں. یہ ایک نا رکنے والا سلسلہ تھا جو مکمل طور پہ مزاح تک ہی رہتا تھا اسلئیے اس کی کوئی حد نہیں تھی  اسکے باوجود کئی بار ایسا موقع بھی آیا جب کسی دوست نے کوئی ایسا بڑا دعویٰ کردیا جس کا لاجک/منطق عقل و فہم سے کہیں دُور دُور تک کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا تھا ایسے موقع پر ہمارا ایک دوست بات ختم کرنے کے لیے بے اختیار کہہ دیتا تھا

"بس کرو ھُن اِس توں وَڈی جھیڑا چَھڈے او بُوں وڈا ر√می ہووے"
(اب اس سے بڑا دعویٰ کوئی کرے تو وہ بہت بڑا خا*بیس ہی ہو)
یہ فقرہ اس ساری بحث و مُباحثے کا فل سٹاپ ہوتا تھا اور اسکے یہ الفاظ اس ساری محفل کا نچھوڑ ہوتے تھے اس کے بعد دوستوں میں سے کسی نے کبھی مزید بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی.

کل جب چیف جسٹس صاحب کا ایک بیان پڑھا جس میں کہا گیا کہ انھوں نے ڈیم کی تعمیر کے لیے مہم شروع کی تو اس مہم کو سبوتاژ کرنے کے لیے دیامیر میں سکول جلادئے گئے تو بے اختیار وہ الفاظ یاد آگئے اور وہ ٹائم ان دوستوں کے ساتھ گزارہ ہوا وقت یاد آگیا ایسا لگا جیسے ہماری جگہ اب یہ کام چند بڑے نامی گرامی افراد نے اپنے ذمہ لیا ہے ہم دوست تو اپنی پرائیویٹ میٹنگ میں "ہوائی" اُڑاتے تھے مگر یہ صاحبان تو کھلم کھلا ایسی ہی باتیں عوام اور میڈیا کے سامنے کرتے چلے آرہے ہیں.

اکثر ایسی باتیں سننے کو ملتی رہتی ہیں جن میں کسی کی "کمر" توڑنے کا دعویٰ بھی ہے خیال گزرتا کہ یہ ریسلنگ اّکھاڑے میں لڑنے والے پہلوانوں جیسی کمر ہے جو اکثر مقابلوں میں ٹوٹ جاتی ہے اور پہلوان کو اسٹریچر پر باقاعدہ میڈیکل آفیسر کی نگرانی میں لے جاتے دکھایا جاتا مگر پھر کچھ عرصہ بعد "چنگا بھلا" ہو کے مقابلے میں کھڑا دکھائی دیتا ہے


کبھی یہ دعویٰ سننے کو بھی ملتا کہ کئی ہزار کروڑ ملک سے کسی دوسرے مُلک بھیجوا دئیے گئے ہیں اور اس وجہ سے اُس مُلک کی اکانومی مضبوط ہوگئی ہے بَندہ پوچھے ایک مُلک جسکی اکانومی ہمارے مُلک  سے کئی گنا بڑی ہے اگر ان کی طرف بھیجی جانے والی رقم سے انھیں سہارہ ملا ہے تو اس بڑی رقم کے نکلنے سے ہماری اکانومی کو مکمل طور پہ بیٹھ جانا چاہئیے تھا جبکہ اسکے برعکس ہماری اکانومی بہتر پرفارم کرتی آرہی ہے.

 کبھی تو کرکٹ میچ جیتنے کا کریڈٹ کسی اور کو دیا جاتا تو کبھی بارڈر پار سے ہونے والی فائرنگ پہ حکومتِ وقت کو رگھیدہ جاتا ہے کہ یہ فائرنگ اِس حکومت کو فائدہ پہنچانے کے لیے کرائی جاتی ہے.


اکانومی کے حوالے سے بغیر کسی بڑی پلاننگ کی موجودگی کے اگلے پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریاں دینے کا دعویٰ بھی سننے کو ملتا ہے اور کہا جاتا فلاں شخصیت انگریزوں کے درمیان رہی اسلئے انکے ساتھ ڈیل کرنا بھی آسان ہے کوئی پوچھے کیا پوری دنیا میں صرف انگریز رہتے اور کیا پورے پاکستان میں صرف وہی ایک شخص ملک سے باہر رہا ہے باقی کسی نے بیرونِ ملک نہیں دیکھا؟


اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں جن کو سننے کے بعد اچھا خاصا سمجھدار انسان بھی اُن کی فہم و فراست کو سوچ کہ لاجواب ہوجاتا اسکے باوجود چیف جسٹس کا یہ بیان کہ انکے ڈیم کیلئے مہم سبوتاژ کرنے کیلئے سکول جلائے گئے ہیں اُس پہ کہنا بنتا ہے کہ 


"ھن اس تُوں وڈی جھیڑا چَھڈے....."


(Leave your comment below & follow my blog for more interesting and informative articles).

مزید پڑھیں 

No comments:

Post a Comment