21 January 2020

پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اورعلاقائی اخبارات کا کوٹہ

علاقائی اخبارات کے کوٹہ سے اشتہارات حاصل کا جو طریقہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ PID میں شروع کیا گیا ہے اس سے چھوٹے اور علاقائی اخبارات کی ساکھ شدید متاثر ہورہی ہے


ہم اکثر سنتے تھے کہ صحافی اپنا قلم بیچتے ہیں تو حیرت ہوتی تھی یہ کیسی بات کہی جارہی مگر اب اپ آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ علاقائی اخبارات کے نمائندوں کی طرف سے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے 25% کوٹے میں سے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ اشتہارات لینے کیلئے کیسے منتیں ترلے کئے جارہے ہیں آجکل یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے سرکاری افسران علاقائی اخباروں کے نمائندوں کو زیادہ اور بڑے اشتہارات کا لالچ دے کر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ موجود حکمرانوں کی تعریفوں کے پُل باندھے تو انھیں اشتہارات ملتے جائیں گے

یہ عمل بالکل ایسا ہی ہے پرانے وقتوں شہنشاہوں کے درباری خوشامدی اور بھانڈ رکھے جاتے تھے جو بادشاہِ وقت کے قصیدے پڑھتے مابدولت کو بھانت بھانت کی تعریفیں اور سچی جھوٹی کہانیوں سے خوش رکھتے ہوئے  عالی جاہ کا جھوٹا اقبال بلند کرتے ہوئے انعامات وصول کرتے تھے


اشتہارات کے حصول کیلیے ایوانِ اقتدار کیلئے تعریفی کلمات لکھنے والے یاد رکھیں حکمرانوں نے ہمیشہ نہیں رہنا نا ان سرکاری افسران نے ان عہدوں پر ہمیشہ کیلئے رہنا ہے اسلئے اپنے وقتی فائدے کیلئے اپنے قلم کو بیچنے سے یہ لوگ ناصرف اپنی بلکہ اپنے اپنے علاقائی اخبارات کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگا رہے ہیں یہ داغ دھلنے کے لیے ایک عرصہ درکار ہوگا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب پرنٹ میڈیا کو الیکٹرانک میڈیا کے بعد ڈیجیٹل میڈیا کی طرف سے جس شدید دباؤ کا سامنا ہے اس وقت میں ایک بار ساکھ متاثر ہونے کے بعد شاید ان اخبارات کیلئے واپسی ممکن نا ہو.


پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے اشتہارات ہمیشہ ہی تعلقات اور اثر و رسوخ کے بنا پر ملتے ہیں بہت کم ایسا ہوتا کہ اس میں میرٹ کا خیال رکھا گیا ہو علاقائی اخبارات کے مالکان کا جھکاؤ جس سیاسی پارٹی کی طرف ہوتا اگر اس پارٹی کی وفاق میں حکومت آ جائے یا وہ مخلوط حکومت میں شامل ہوں تو ان کے اخبارات کو زیادہ اشہارات ملتے ہیں اس طرح جب تک وہ حکومت رہتی ان کے وارے نیارے رہتے ہیں.


دوسرا ان اخبارات کے لیے کام کرنے والے صحافی حضرات کی اپنی جان پہچان کام آتی ہے اگر پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں ان کے بہتر تعلقات والے افسران ہوں تو بھی ان کے اشتہارات کی تعداد بڑھ جاتی ہے.
تیسرا سدابہار طریقہ ہے


"جتنا گُڑ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہوگا"


جو جتنا گُڑ ڈالے گا اسے اتنا ہی میٹھا ملتا اب یہ گُڑ کس شکل میں کہاں کہاں ڈالنا پڑتا یہ ایک الگ سے تفصیلی موضوع ہے جس پر پھر کسی وقت پر بات ہوگی


پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے علاقائی کوٹہ کے لیے اشتہارات لینا ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے کیونکہ ان ملنے ولے اشتہارات کا آدھا یا ایک چوتھائی اس اخباری نمائندے کو ملتا اس لیے یہ نمائندے پورے دن میں کم از کم ایک بار ضرور پی.آئی.ڈی کا چکر لگاتے اور دیر تک وہاں منڈلاتے نظر آتے ہیں ویسے تو دیگر کاروباری معاملات کی طرح ہر انسان کو حق ہے کہ وہ جس مرضی طریقے سے اپنے لیے فائدہ حاصل کرے لیکن اس عمل سے صحافت کی کوئی خدمت نہیں ہورہی بلکہ الٹا سیاسی حکومتیں اس کوٹہ کو استعمال کرتے ہوئے ان اخبارات کو اپنے مفاد میں استعمال کرتی ہیں جو کسی طور نیک نامی میں اضافہ کا سبب نہیں بنتا.


میرٹ کو مدِنظر رکھے بغیر مخصوص کوٹہ کے اشتہارات بانٹنے کی وجہ سے صحافتی اقدار کو زندہ رکھنے والے ان افراد کی حوصلہ شکنی ہوتی جو اصولوں پہ کاربند ہیں وہ خود صعوبتیں جھیل رہے جبکہ جُگھاڑ لگانے والوں کی چاندی ہے ایسے لوگ بھی مشاہدے میں آئے ہیں جو کچھ عرصہ قبل اس فیلڈ میں آئے اور مذکورہ بالا طریقوں کے استعمال سے راتوں رات کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں حالانکہ ان کے کریڈٹ پہ کوئی بڑی یا نمایاں صحافتی کارکردگی بھی نہیں ہے ان کی چال ڈھال رہن سہن ہی الگ ہی ہے جس سے پتہ چلتا ان کی چاروں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے


جبکہ محنت پر یقین رکھنے والے صحافیوں اور صحافتی اصولوں پر سمجھوتا نا کرنے والوں کا حق مسلسل غصب کیا جارہا ہے.


(Leave your comment below & follow my blog for more interesting and informative articles).

1 comment: