یہ ساری صورتحال کسی طور بھی رپورٹنگ کے شعبے میں انٹرسٹ کو آگے بڑھاتے ہوئے باقاعدہ صحافت کے شعبے کو اختیار کرنے کے لیے سازگار نہیں رہی جب کہ اس کام میں فلحال اتنا تجربہ نا ہونے کے سبب کوئی زیادہ نمایاں روزگار ملنے کا بھی امکان نہیں. چند بڑے میڈیا ادارے جہاں صحافت بہتر انداز میں اور تنخواہیں ٹائم پہ ملنے کا رواج تھا وہ ادارے بھی اب خبر کو اس کے اصل ماخذ کے مطابق عوام تک پہنچانے میں پسُ پیش سے کال لیتے نظر آتے ہیں تنخواہوں کی بروقت ادائیگی میں آج کل کے مخصوص حالات کی وجہ سے مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں. اس سارے ماحول میں ایک دن ایسا واقع ہوا کہ چینل کے نیوز ایڈیٹر کو واٹس ایپ پر صحافت سے وابستہ چند مخصوص لوگوں کے گروپ میں راولپنڈی (صدر) سائیڈ سے ایک ’’ریٹائرڈ یک ستاروی‘‘ کا ’’اَن آفیشل‘‘ میسج آیا جس میں اشاراتاً ایک آن ڈیوٹی ’’تین ستاروی (شمالی)‘‘ کے حوالے سے منسوب ایک مخصوص قسم کے خبر کو "اہمیت" نا دینے اور خبروں میں "اجاگر‘‘ نا کرنے کا کہا گیا تھا۔ اس موقع پر وہاں صحافت سے وابستہ دیگر سینئر افراد کے تبصروں کا خلاصہ بھی یہی تھا کہ پہلے عام لوگوں کو منع کیا جاتا تھا کہ مخصوص موضوعات پہ بات نا کی جائے یا ان کے بیانات کو سنسر کرایا جاتا تھا مگر اب تو "یہ لوگ" آپس میں بھی ایک دوسرے کی خبریں رُکوانا شروع ہوگئے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں جب سچ کو لوگوں تک پہنچانے اور متبادل رائے کا اظہار جو کہ صحافت کا بنیادی اصول ہوتا ہے اس کو یقینی نا بناسکنے کے خدشے موجود ہوں صحافت کے شعبے کو خیرباد کہنا اور میڈیا میں مارکیٹنگ کے شعبے میں ملنے والے موقع کو استعمال کرنا یقیناََ ایک مشکل اور تکلیف دہ فیصلہ تھا مگر موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہی مناسب لگا اِس امید کے ساتھ کہ اُس وقت تک انتظار کیا جائے جب "کبھی" حالات "کچھ" بہتر ہوں اور سچ کو آگے پہنچانے پہ قدغن لگانے کے سلسلے ختم ہوں تو اس شعبے کو مکمل طور پر اختیار کرنے کا دوبارہ سوچیں گے.
( آرٹیکل مئی 2018 میں لکھا گیا تھا)
No comments:
Post a Comment