Search This Blog

Translate

02 August 2018

صحافت کا مستقبل

پاکستان میں صحافت کا مستقبل
اسلام آباد کی ایک نامور یونیورسٹی سے ماسٹر ماس کمیونیکیشن کی ڈگری تکمیل کے آخری مراحل میں ہونے اور کلاسز کے دوران مختلف پروفیسرز/لیکچررز حضرات کے ساتھ سوال جواب میں شرکت کرتے ہوئے سوالات و مختلف موضوعات پر اپنی مدلل رائے کے سبب کلاس میں نمایاں حیثیت حاصل رہی دیگر لیکچررز کے علاوہ ایک سینئرترین/تجربہ کار صحافی جو پی.ٹی.وی کے لیے کافی عرصہ تک خدمات دینے کے علاوہ ایک نجی ٹی.وی چینل کے ایم۔ڈی کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں. 
متذکرہ بالا سینئر صحافی نیشنل اینڈ انٹرنیشنل کرنٹ افیئرز پڑھانے آتے رہے کلاس میں مختلف موضوعات پر وہ خاکسار کو رائے دینے کیلیے اپنی طرف سے نامزد کرتے تھے کرنٹ افیئرز, ہسٹری اور جنرل نالج میں اچھی گرفت کے سبب میرے اکثر سوالات کے جواب دینے سے قاصر رہتے یا کسی جانے انجانے خوف و احتیاط کے سبب موضوع کو تبدیل کرتے نظر آتے ان کی رائے کے مطابق ناچیز ان چند طلبا(و طالبات) میں سے تھا جن باتوں یا سوالات میں انہیں وہ کاٹ نظر آتی جو کے صحافت کے میدان میں کامیابی سے آگے بڑھنے میں مدد گار و معاون ثابت ہوتی ہے۔
اسی امید کے ساتھ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے جناح ایوینیو بلیو ایریا پر پولی کلینک کے قریب ایک نمایاں نیوز چینل میں انٹرنشپ شروع کی تو یہ وہ دن تھے جب سال کے تیسرے مہینے میں ایک بڑے میڈیا گروپ کو ملک بھر میں بند کرانے اور ان کے اردو/انگلش اخبارات کی ترسیل جو پہلے ہی مشکلات کا شکار کردی گئی تھی جس کی وجہ سے اس گروپ کو اپنے ملازمین کو وقت پر تنخواہیں دینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا یوں تو میڈیا انڈسٹری میں تنخواہوں کی بندش یا تاخیر ایک معمول کی بات ہے مگر کافی عرصے تک چند بڑے میڈیا کے اداروں میں تنخواہوں کی بروقت ادائیگی مسئلہ نہیں رہا تھا اطلاعات کے مطابق اس گروپ کے مالکان نے ایک "خفیہ معاہدے" کے تحت مخصوص قسم کے تبصروں و خبروں پر ہاتھ ہولا رکھنے کی یقین دہانی کے بعد اپنے کاروبار کو تو بچا لیا ہے مگر اپنے ادارے کی ساکھ کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں جس کے بعد اب حالت یہ ہے کہ اُسی گروپ کے تجزیہ نگار، صحافی دیگر ماہرین دوسرے ٹی.وی چینلز پر تبصرے کرتے نظر آتے مگر اپنے چینل پہ انھیں پہلے کی طرح کھل کر بات کرنے میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے.
دوسری طرف ملک کے ایک بڑے انگریزی اخبار میں چھپنے والے ایک انٹرویو جو کہ ملک کے نمایاں سیاستدان کا تھا شائع ہوا اُس سیاستدان کے ستارے آجکل گردش میں ہیں یہ انٹرویو "کچھ طاقتور حلقوں" کو پسند نا آیا۔
 سیاستدان چونکہ پہلے ہی گرداب میں پھنسا ہوا تھا اس لیے اس کو مزید تو نہیں چھیڑا گیا مگر انٹرویو چھاپنے والے اس انگریزی رورنامہ کے پورے ادارے کی شامت آ گئی اب اس ادارے کے ٹی.وی چینل کی نشریات ملک بھر میں کیبل پر بھی بند ہورہی ہیں جبکہ پورے ملک بھر میں اس ادارے کے اخبارات کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالہ جانی شروع کردی گئی ہیں
اس سے پہلے کچھ ایسی بھی اطلاعات تھیں کہ "علی بابا اور چالیس چوروں" کی ایک میٹنگ میں یہ سختی سے مگر آف دی ریکارڈ بتا دیا گیا تھا کہ "خبر وہی ہوگی جسکو ہم خبر کہیں گے" صحافیوں کی مارکٹائی حیلے بہانوں سے انہیں تنگ کرنے کا سلسلہ تو پچھلے کافی عرصے سے معمول بنا ہوا اسلئیے بڑے اعلٰی پائے کے صحافی اور میڈیا اداروں کے مالکان بھی موجودہ صورتحال میں جان و مال کی حفاظت کے پیشِ نظر محتاط ہوچکے ہیں اور ڈر, مصلحت پسندی یا اپنی کاروباری مجبوریوں کی وجہ سے ’’ہتھ ہولہ‘‘ رکھنے پر راضی دکھائی دے رہے ہیں.

یہ ساری صورتحال کسی طور بھی رپورٹنگ کے شعبے میں انٹرسٹ کو آگے بڑھاتے ہوئے باقاعدہ صحافت کے شعبے کو اختیار کرنے کے لیے سازگار نہیں رہی جب کہ اس کام میں فلحال اتنا تجربہ نا ہونے کے سبب کوئی زیادہ نمایاں روزگار ملنے کا بھی امکان نہیں. چند بڑے میڈیا ادارے جہاں صحافت بہتر انداز میں اور تنخواہیں ٹائم پہ ملنے کا رواج تھا وہ ادارے بھی اب خبر کو اس کے اصل ماخذ کے مطابق عوام تک پہنچانے میں پسُ پیش سے کال لیتے نظر آتے ہیں تنخواہوں کی بروقت ادائیگی میں آج کل کے مخصوص حالات کی وجہ سے مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں. اس سارے ماحول میں ایک دن ایسا واقع ہوا کہ چینل کے نیوز ایڈیٹر کو واٹس ایپ پر صحافت سے وابستہ چند مخصوص لوگوں کے گروپ میں راولپنڈی (صدر) سائیڈ سے ایک ’’ریٹائرڈ یک ستاروی‘‘ کا ’’اَن آفیشل‘‘ میسج آیا جس میں اشاراتاً ایک آن ڈیوٹی ’’تین ستاروی (شمالی)‘‘ کے حوالے سے منسوب ایک مخصوص قسم کے خبر کو "اہمیت" نا دینے اور خبروں میں "اجاگر‘‘ نا کرنے کا کہا گیا تھا۔ اس موقع پر وہاں صحافت سے وابستہ دیگر سینئر افراد کے تبصروں کا خلاصہ بھی یہی تھا کہ پہلے عام لوگوں کو منع کیا جاتا تھا کہ مخصوص موضوعات پہ بات نا کی جائے یا ان کے بیانات کو سنسر کرایا جاتا تھا مگر اب تو "یہ لوگ" آپس میں بھی ایک دوسرے کی خبریں رُکوانا شروع ہوگئے ہیں۔

اس ساری صورتحال میں جب سچ کو لوگوں تک پہنچانے اور متبادل رائے کا اظہار جو کہ صحافت کا بنیادی اصول ہوتا ہے اس کو یقینی نا بناسکنے کے خدشے موجود ہوں صحافت کے شعبے کو خیرباد کہنا اور میڈیا میں مارکیٹنگ کے شعبے میں ملنے والے موقع کو استعمال کرنا یقیناََ ایک مشکل اور تکلیف دہ فیصلہ تھا مگر موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہی مناسب لگا اِس امید کے ساتھ کہ اُس وقت تک انتظار کیا جائے جب "کبھی" حالات "کچھ" بہتر ہوں اور سچ کو آگے پہنچانے پہ قدغن لگانے کے سلسلے ختم ہوں تو اس شعبے کو مکمل طور پر اختیار کرنے کا دوبارہ سوچیں گے.

( آرٹیکل مئی 2018 میں لکھا گیا تھا)

No comments:

Reader's Choice

Followers