Search This Blog

Translate

07 February 2020

تحریکِ طالبان پاکستان کے سابقہ ترجمان کی سوشل میڈیا پر سمعی پیغام کی ویڈیو

چند دنوں سے تحریکِ طالبان پاکستان کے سابقہ ترجمان کی سوزل میڈیا پرسمعی پیغام کی ویڈیو شئیر کی جا رہی جس میں مذکورہ شخص کی طرف سے یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ وہ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا ہے


 اس دعوی سے جُڑی اہم معلومات

اس دعوی سے متعلق سمعی ویڈیو پیغام کو سب سے پہلے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے شئیر کیا گیا جو کہ جنوری 2020 میں بنایا گیا یہ توئٹر اکاؤنٹ لیاقت علی نامی فیس بک اکاؤنٹ جُڑا ہوا ہے جو کہ احسان اللہ احسان کا ہی اصل نام ہے یہ فیس بک اکاؤنٹ ستمبر 2016 میں بنایا گیا تھا حیرانی کی بات یہ ہے کہ فیس بک کا یہ اکاؤنٹ 2018/19 میں متحرک رہا اور اس اکاؤنٹ سے ہر مہینے پوسٹ ہوتی رہیں بعض دفعہ تو کئی کئی پوسٹ بھی ہوئیں جبکہ اس وقت اسکی کرنٹ لوکیشن اسلام آباد رہی یاد رہے یہ وہ وقت وہ عرصہ تھا جب احسان اللہ احسان پاکستانی اداروں کی تحویل میں تھا

سمعی پیغام اینڈرائڈ Android موبائل ایپلیکشن فلمی گو FILMIGO کے ذریعے بنائی گئی ہے ویڈیو کلپ کو پہلے مذکورہ فیس بک اکاؤنٹ سے شئیر کیا جبکہ ٹوئٹر اکاؤنٹ نے اس کو چند پاکستانی صحافیوں کے شئیر کرنے کے بعد دوبارہ ٹویٹ کیا ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پہلا ٹویٹ 6 فروری کو پاکستانی وقت کے مطابق سہ پہر 3:20 پر کیا گیا جس میں صرف اتنا لکھا گیا تھا "I am back" (میں واپس آگیا) جس نے کوئی توجہ حاصل نہیں کی نا ہی کسی نے اس ٹویٹ کو دوہرایا


ٹوئٹر اکاؤنٹ سے تقریباً دو گھنٹے بعد فیس بک پوسٹ کے لنک اور چند صحافیوں کو ٹیگ کرکے ایک اور ٹویٹ کی گئی جس نے فوری توجہ حاصل کی تاہم ٹویٹ کو دہرانے والے صحافیوں نے اس کی تصدیق کئیے بغیر اس کو ری.ٹویٹ کیا
سمعی پیغام کے ساتھ ویڈیو کلپ پہلی بار ٹوئٹر پر ایک بھارتی صحافی نے فیس بک پر شئیر ہونے کے ایک گھنٹہ بعد لگائی پہلی خبر بھارت کے ایک غیر معتبر جریدے سنڈے گارڈین نے جنوری میں لگائی تھی جسے پاکستانی صحافتی حلقوں سے حمایت نہیں ملی.


احسان اللہ احسان کے اس پیغام کو آزاردانہ طور پر اسی صورت میں درست تصور کیا جاسکتا اگر اس میں موجود آواز اس کے ماضی کے انٹرویو والی آواز سے مطابقت رکھتی ہو لیکن جب ایسا کیا گیا تو اس پیغام میں موجود آواز کی اس سے مکمل طور پر مطابق نہیں پائی گئی


ٹوئٹر اکاؤنٹ پر تحریکِ طالبان پاکستان کو "Tahreek e Taliban" لکھا گی ہے جبکہ ٹی.ٹی.پی کے دیگر اکاؤنٹ و ذرائع "Tehrik" یا "Tehreek" کے سپلنگ استعمال کرتے ہیں تاہم یہ معمول بات ہوسکتی ہے


جن باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا وہ یہ کہ احسان اللہ احسان کا فیس بک اکاؤنٹ اس کے دورانِ تحویل کیسے متحرک رہا اور وہ ماضی میں ترجمان رہا ہے جس کے صحافتی حلقوں میں رابطے ہونے کے باوجود ان کے ذریعے یہ خبر نہیں دی بلکہ فیس بک و ٹوئٹر کو استعمال کیوں کیا؟

اِن سب کا یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا کہ سوشل میڈیا میں پھیلنے والے سمعی ویڈیو پیغام کی حقیقت ہونا ابھی بھی سوالیہ نشان ہے صحافی حضرات تصدیق کئیے بغیر اس کی نا پھیلائیں


فیس بک اکاؤنٹ کیسے متحرک رہا کون اس کو چلاتا رہا اس بارے میں ہم نہیں جانتے
اس موقع پر ہم سیکیورٹی اداروں کی طرف سے وضاحت درکار ہے
پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی طرف سے اس وضاحت کی ضروت ہے کہ احسان اللہ احسان ابھی بھی ان کی تحویل میں ہے؟ اسے رہا کردیا گیا ہے؟ یا وہ بھاگنے میں کامیاب ہوا ہے؟ یہ تینوں مختلف اثر رکھنے والی باتیں ہیں

فیس بک اکاؤنٹ اور سمعی ویڈیو کلپ سے ظاہر ہوتا کہ جلد ہی ویڈیو پیغام بھی آسکتا ہے جو کئی گھتئیوں کو سلجھانے میں مددگار ثابت ہوگا اس وقت تک انتظار رہے گا کہ نیا ویڈیو پیغام سامنے آتا ہے یا سیکیورٹی اداروں کی طرف سے کوئی وضاحت پہلے سامنے آئے گی


پاکستانی صحافی ضرار کھوڑو نے بی.بی.سی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ جب ان خبروں کے بارے میں آئی.ایس.پی.آر سے رائے مانگی گئی تو کوئی جواب نہیں دیا گیا.



Credit:
Faran Jeffery
Deputy Director & Head of South Asia Desk
Islamic Theology of Counter Terrorism

No comments:

Reader's Choice

Followers