Search This Blog

Translate

07 January 2020

امریکہ ایران کشیدگی حالات و واقعات

امریکہ ایران حالیہ کشیدگی کے تانے بانے ماضی کے کئی واقعات سے وابستہ ہیں ایران پر لگنے والی پابندیوں کے دوران سابق امریکی صدر باراک اوبامہ (جن پہ امریکی صدارتی الیکشن کے دوران مسلمان فیملی سے تعلق کا الزام لگا اس کا تفصیل سے مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا کہ باراک اوبامہ کے آباؤ اجداد میں جو اسلام تھا وہ ایرانی مسلک کے قریب ترین والا تھا) نے اپنے دور اقتدار میں ایران کو اتنی سہولیات فراہم کیں کہ وہ اپنی سرحدوں سے باہر جنگ زدہ عراق, شامی صدر بشارالاسد کی حمایت, یمن کے حوثی باغیوں کی مسلح مدد اور بحرین سمیت دیگر عرب ممالک میں اپنے مسلک کے قریب ترین لوگوں کے ذریعے وہاں مسلح جدوجہد شروع کرانے کے قابل ہوا جسکے بعد ان ممالک میں حالات کی خرابی قیمتی انسانی جانوں کے ضیائع کے ساتھ لاکھوں افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنے اور دربدر ہونے پر مجبور ہونا پڑا بارک ابامہ کے دور اقتدار میں ہی امریکہ کی ایران کے ساتھ نیوکلئیر ڈیل ممکن ہوئی جسے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اب اس ڈیل سے نکلنے کی باتیں ہورہی ہیں.

ایرانی معاملات کو خطہِ عرب میں القدس فورس کے ذریعے چلایا جاتا رہا جسکے اراکان جنرل قاسم سلیمانی کی کمانڈ میں مسلح جدوجہد میں کافی تجرجہ حاصل کرچکے ہیں پچھلے 15 سے 20 سالوں کے دوران صدام حسین اور بعد میں داعش جو کے اِن علاقوں میں ایرانی مخالف مسلک سے تعلق رکھتے تھے امریکہ کو ان کے خلاف کاروائیوں کیلئے  یکسوئی کے ساتھ اتحادیوں کی بھی ضرورت تھی جبکہ نئے محاذ کھولنا کسی طور بھی دانشمندانہ عمل نہیں تھا اسلئے القدس فورس اور دیگر ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروہوں کے خلاف کاروائیاں نہیں کی گئیں.

حالیہ دنوں میں عراقی حکومت جو کہ ایرانی مسلک اور اسکے اثررسوخ سے قائم ہے کے خلاف جب عوام نے عراق کی سڑکوں پر احتجاج شروع کیا تو ان کے احتجاج کو طاقت سے دبانے میں جنرل قاسم سلیمانی کے مسلح گروہوں نے اہم کردار ادا کیا جسکے بعد بغداد میں موجود امریکی کونسلیٹ پر بھی ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کےحملے ہوئے اور اسکا گھیراؤ کرے نقصان پہنچایا گیا جو کہ علاقے میں ایرانی اثرورسوخ اور بڑھتی ہوئی طاقت کا مظہر تھا.

طاقت کے اس توازن کو اپنے حق میں لانے کیلئے امریکی حکومت پر دباؤ بڑھتا جارہا تھا امریکی اسٹیبلشمنٹ باراک اوبامہ کی ماضی کی پالیسیوں سے  بھی نالاں تھی اور اسکا ازالہ چاہتی ہیں دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی کانگریس میں مواخذے کا سامنا ہے جس سے توجہ ہٹانے کے لیے امریکی صدر نے جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے کا حکم صادر کیا جسکا فائدہ کئی حوالوں سے امریکی انتظامیہ کو پہنچا ہے جبکہ ایرانی مفادات کو شدید ذق پہنچی ہے کیونکہ جنرل قاسم سلیمانی عرب خطہ میں کافی عرصے سے ایرانی پراکسی وار کے سرخیل تھے.

اس واقعہ کے بعد ایران کے پاس تین آپشن ہیں

ڈائریکٹ امریکہ سے لڑائی مول لے جس کا امکان نا ہونے کے برابر اور قطعی طور پر احمقانہ عمل ہوگا اس وقت ایران کو کسی بڑی طاقت کی حمایت حاصل نہیں

اکیلے امریکہ سے لڑنے کی اس کے پاس صلاحیت موجود نہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح پیغام دیا ہے کہ ایران کی طرف سے کسی بھی قسم کی کاروائی کے جواب میں امریکہ نے ایران میں 52مقامات کے گرد سرخ دائرہ لگایا ہوا ہے جن پر ایرانی کاروائی کی صورت میں جوابی حملہ کیا جائے گا جو کہ کسی طور ایرانی حکومت کی مفاد میں نہیں ہوگا اور معاشی مشکلات میں پھنسی ہوئی ایرانی عوام کیلئے تکالیف میں مزید اضافہ کا موجب بھی بنے گا.

دوسری صورت میں ایران خطے میں امریکی اتحادیوں کے خلاف ٹارگٹڈ کاروائی کرسکتا لیکن اسرائیلی کے خلاف ڈائریکٹ کاروائی سے پہلے بھی ایران دس دفعہ سوچے گا کیونکہ اسرائیلی کے پاس مناسب سے لے کر بڑی جوابی کاروائی کرنے کی مکمل صلاحیت موجود ہے.

یاد رہے قریباً دو سال پہلے اسرائیل نے شام میں موجود القدس فورس اور دیگر ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاء کے 13 تنصیبات پر ایک ہی رات میں 40 سے زیادہ فضائی حملے کرکے ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کی دس سالہ مسلح جدوجہد کو منوں مٹی میں ملا دیا تھا جبکہ اس دوران ایران کی طرح بشارالاسد کی حمایت یافتہ روسی ائیر ڈیفنس کی جدید ترین اینٹی ائیرکرافٹ بیٹری علاقے میں موجود ہونے کے باوجود لاتعلق رہی اور ایک بھی جوابی فائر نہیں کیا جسکا یہ مطلب لیا گیا کہ روس بھی علاقے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو ایک خاص حد سے زیادہ پسند نہیں کرتا.


 ایران البتہ سعودی عرب کے سرحدی علاقوں میں محدود کاروائی کرسکتا جو کہ پاکستان جیسے ملک کے لیے اسلئے بھی کسی طور مناسب نہیں کہ ایسا ہونے اور لڑائی بڑھنے کے بعد ایرانی مسلک کے قریب ترین پاکستانی اور دیگر مسالک کے درمیاں تناؤ پیدا ہوسکتا جس کو دونوں ممالک اپنے مفاد میں استعمال کرسکتے ہیں جس میں سراسر نقصان پاکستانی عوام اور ان کے بچوں کا ہوگا.


تیسری صورت یہ بن سکتی کہ ایران افریقی ممالک میں اپنے حمایت یافتہ گرہوں کے ذریعے امریکی تنصیبات و مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے جیسا کہ پچھلے دہائی کے ابتدا میں لیبیا کے شہر *بن غازی* میں امریکی کونسلیٹ پر حملے کے بعد امریکی سفیر کی ہلاکت کے صورت میں سامنے آیا تھا جسکے بعد وہاں حالات مزید سنگین ہوگئے تھے.


اس ساری صورتحال میں چند ممالک ایسے بھی ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان رابطہ کاری سے کشیدگی کو کم کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں تاکہ حالات کو مزید بگڑنے سے بچایا جاسکے اس حوالے سے آنے والے دنوں اور چند ہفتوں میں صورتحال واضح ہوجائیگی



No comments:

Reader's Choice

Followers