Search This Blog

Translate

24 September 2018

پراپیگنڈا اور ہمارا معاشرہ

*انسانی دماغ ہر اس چیز یا بات کا اثر آسانی سے قبول کرتا جسکی اسے سمجھ نا ہو یا جسکا حل تلاش کرنے میں اسے دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہو*

آج کے حالات دیکھتے ہوئے کہا جاتا میڈیا وار اور پراپیگنڈا ملک کو تباہ کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ اصل کہانی کیا ہے مشرف کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی سامراجی قوتوں کو پاکستانی سے معاملات میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اسی وقت سے گیم پلان کیا گیا نئی حکومت کو وہ تمام فنڈز جو مشرف حکومت کے دوران صحت اور سوشل سیکٹرز میں ملتے رہے وہ فنڈنگ بند کردی گئی جبکہ معاشی زبوں حالی عالمی مارکیٹ میں بھی مواقع کم کرنے میں ایک اہم وجہ بنی ایسے ہی وقت مین ممبئی حملوں نے پاکستان کی نا صرف بدنامی کا باعث بنے بلکے نئی حکومت کو بھی گٹھنے ٹیکھنے پر مجبور کیا گیا.

اس ساری صورتحال کا مقصد ایک ایسا نیا سیٹ اپ لانا تھا جو مشرف حکومت کے بعد سامراج کے لیے اندرونِ خانہ کام کرے اور زیادہ مشکلات پیدا نا کرے اسی دور میں مخصوص سیاسی پارٹیوں کو مضبوط کرنا شروع کیا گیا2011 وہ سال تھا جب پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے ذریعے نئی سوچ کو ابھارا گیا اور انقلاب کے راستے دیکھائے گئے ہر ملک کی اپنی جغرافیائی اور سماجی حالات کے پیش نظر مختلف طریقے اپنائے گئے جس کی نظیر عرب ممالک میں پرتشدد اور چند دیگر ملکوں میں دوسرے طریقوں سے حالات کو بدلہ گیا 2013 کے الیکشن تک شدید قسم کے پراپیگنڈا کے سبب تمام عوامی سیاسی پارٹیوں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نا چھوڑی گئی مگر پھر بھی کامیابی کا یقین نا ہونے کے سبب ڈاکٹر طاہرالقادری کی تنظیم کو اسلام آباد کی سڑکوں پہ چھوڑ دیا گیا اور مقصد صرف اتنا کہ انتخابات کو کچھ عرصہ کلیے ملتوی کر دیا جائے کیونکہ اس میں مخصوص سیاسی جماعتیں کامیاب نہیں ہوسکتی تھیں اور انتخابات کو ملتوی وہ جماعت کرنا چاہتی تھی جسکا اپنی کوئی سیاسی مستقبل نہیں تھا.

آج بات کی جاتی ملک میں احتجاج و ہنگامے سازش کا حصہ ہیں جبکہ 2012 سے لیکر 2017 تک یہ ساری قوتیں خود تھوڑ پھوڑ, جلاؤ گھیراؤ اور احتجاجی سیاست کرکے ملک میں انارکی پھیلانے کا سبب بنی رہی ہیں
انہی قوتوں کی وجہ سے بیٹا باپ کے اور چھوٹا بھائی بڑے کے منہ کو آتا تبدیلی کے نام پہ, اخلاقی قدروں کا جنازہ نکالا گیا ہے اور آج لوگوں کو اخلاق کا درس اور لحاظ کرنے کی تلقین اُن لوگوں کی طرف سے کی جاتی ہے جو خود پراپیگنڈا کی پیداوار اور سامراجی ایجنڈے پر جانے انجانے میں عمل پیرا ہیں اور عام عوام کو اس غیر مرائی ففتھ جنریشن وار سے ڈراتے دکھائی دیتے جسکا اگر وجود ہے تو یہی لوگ باقاعدہ اس کا حصہ رہے ہیں

آخر میں پھر اسی بات  کہ عمومی انسانی دماغ ہر اس بات کو فوراً تسلیم کرتا جسکی اسے مکمل سمجھ نا ہو لیکن وہ ایسے طریقے سے اسکے سامنے لائی جائے کہ جیسے وہ کسی تحقیق کے عمل سے گزر کر بتائی گئی ہو اور معاشرے میں پھیلائی جارہی ہو.


No comments:

Reader's Choice

Followers